
Momineens Get Online Quran ClassesLearn Quran and Religion at Home with Al Mehdi Quran Center – Free Trial Classes via Skype!Momineens Get Online Quran Classes
January 29, 2025
28th Rajab 60 AH- Imam Hussain(a.s.) Leaves Madina
January 29, 2025امام حسین (ع) نے مدینۂ منورہ سے مکۂ معظمہ کا سفر کیوں کیا
امام حسین (ع) نے مدینۂ منورہ سے مکۂ معظمہ کا سفر کیوں کیا؟
اگر جنگ مقصود تھی تو اہل حرم کو ساتھ کیوں لے گئے؟
سنہ 61 ہجری میں جب اسلامی دنیا پر شام کی سیاہی پوری طرح چھاگئی، مذہب اسلام کا چراغ فسق و فجور کی طوفانی ہواؤں سے جھلملانے لگا، توحید و رسالت کی کشتی ملوکیت و سلطنت کے تھپیڑوں سے ڈوبنے کے قریب پہنچ گئی۔ ضرورت تھی کہ کوئی حق و صداقت کی پتوار لے کر اٹھے اور اپنے اور اپنے خاندان کے خون میں ڈوب کر اسلام و ایمان کی کشتی کو ساحل نجات تک پہنچائے اور ایثار و شہادت کے فانوس میں حریت و آزادی کا چراغ اس طرح محفوظ کردے کہ ظلم و بربریت کے جھکڑ قیامت تک اسے خاموش نہ کرسکیں۔
رسول اسلام (ص) کے نواسے، علی (ع) و فاطمہ (س) کے چشم و چراغ، حسن (ع) کے قوت بازو امام حسین (ع) کے سوا کون تھا جو اپنے الہی فریضہ کا احساس کرتے ہوئے خاندان نبوت و رسالت کی جان، مال اور آبرو کو جوکھم میں ڈال کر ملت اسلامیہ کی حفاظت و پاسبانی کا بیڑا اٹھاتا اور صحرائے کربلا میں قربانی کے لئے تیار ہوجاتا؟
شام، عراق، مصر، حجاز، فارس اور یمن میں کون تھا جو ابوسفیان کے پوتے یزید بےحیا کے انسانیت سوز حرکات و افعال سے واقف نہ ہو؟ مگر زر و سیم کے بندوں اور مکر و فریب کے تودوں کی غیرت و حمیت ان سے خیر باد کہہ کر رخصت ہوچکی تھی اور شام کا بے حیا گلہ بان اقتدار کی چھڑی ہاتھ میں لئے ایک جمعیت کو “لا خبر جاء و لا وحی نزلا” کے نعرے لگا کر جہنم کی طرف ہانک رہا تھا۔ ایسے میں فرض شناس و حق آگاہ حسین (ع) ابن علی (ع) نے اسلام و مسلمین کی نجات کے لئے ایک انقلاب ضروری سمجھا۔
انقلاب یعنی امت کی اصلاح، انقلاب یعنی نبی (ص) و علی (ع) کی تعلیمات کا احیاء، انقلاب یعنی اسلام کی تجدید حیات۔ امیر شام کے فرزند کی بیعت سے انکار کو بہانہ بنا کر نواسۂ رسول (ص) نے مدینۂ منورہ سے ہجرت اختیار کی۔ نانا کے روضے، ماں کے مزار اور بھائی کی لحد سے رخصت ہوئے، نانی ام سلمہ (رض) اور ماں ام البنین (رض) کو آخری سلام کیا، بھائی محمد حنفیہ (رض) اور بہنوئی عبداللہ ابن جعفر (رض) کو اہل مدینہ کی حفاظت و پاسبانی پر مامور کیا اور اہل خاندان کے ساتھ مکۂ معظمہ کی طرف روانہ ہوگئے۔
جذبات و احساسات کے دھنی اہل حرم اور ثبات و استقامت کے پیکر اعزۂ و اصحاب نے آپ کی معیت اختیار کی۔ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ فرزند فاطمہ کی ہر نقل و حرکت اور ہر جنبش و سکون میں اسلام کی حیات کا ایک راز پوشیدہ ہے۔ امام عالیمقام (ع) کی مکۂ معظمہ کی طرف روانگی اور حجۃ الحرام کے ایام سے تین چار ماہ قبل محترم مہینوں میں اللہ کے محفوظ و مامون گھر اور شہر میں قیام بظاہر حفظ جان و مال کے لئے کیا گیا ایک اقدام تھا مگر اس حکمت آمیز فیصلے میں بہت سے رموز پنہاں تھے جن کو بصیرت افروز نگاہیں دیکھ اور سمجھ رہی تھیں۔
مکۂ معظمہ، جزیرۃ العرب بلکہ پورے عالم اسلام کا محور و مرکز تھا جہاں دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کی مسلسل آمد و رفت رہتی تھی۔ حج کا فریضہ انجام دینے سے قطع نظر زمانۂ قدیم سے ہی یہاں چاروں طرف سے عرب قبائل تجارت و غیرہ کے لئے آتے جاتے تھے۔ یہ مختلف الخیال افراد کا محل اجتماع تھا۔ بڑے بڑے بازار لگتے اور شعر و سخن کی محفلیں جمتی تھیں۔ خاص طور پر ذیقعدہ سے محرم الحرام تک مکہ، طائف اور مدینہ کے درمیان بڑی گہماگہمی رہتی تھی۔
امام حسین (ع) کی شخصیت سے لوگ پوری طرح واقف تھے اور امیر شام کی موت کے بعد ان کی طرف عالم اسلام کی نگاہیں ٹکی ہوئی تھیں۔ اگرچہ لوگوں کے مذہبی احساسات مردہ ہوچکے تھے، مگر سیاسی اور معاشرتی سرگرمیاں ان کے فیصلے کی منتظر تھیں کہ مطالبۂ بیعت کا حسین (ع) ابن علی (ع) کسی طرح جواب دیتے ہیں؟ سیاسی اور مصلحتی سمجھوتا یا جنگ و مقابلے کے لئے فوجی تیاری؟ امام (ع) اگر چاہتے تو یمن، طائف اور کوفہ و بصرہ سے ایک لشکر جمع کرلینا کوئی بڑا کام نہیں تھا، مگر امام (ع) کو مسلمانوں پر حکمرانی کی نہیں، ان کی اصلاح اور بیداری کی فکر تھی۔ وہ یزیدی لشکر کو نہیں، مسلمانوں کے قلب و دماغ تسخیر کرنا چاہتے تھے۔
چنانچہ حج کے عظیم الشان اجتماع سے امام (ع) نے فائدہ اٹھایا۔ اسلامی دنیا کی نمائندہ علمی اور ثقافتی شخصیات کو جمع کرکے اسلام کے دفاع اور باطل سے مقابلے کے سلسلے میں ان کی ذمہ داریوں کو یاد دلائیں۔ ایک خطبہ میں دین و مذہب کے دفاع سے متعلق یہودی اور عیسائی علماؤ کی لاپروائی پر سرزنش کی اور قرآنی آیات کی تلاوت کرکے خدا کی لعن و نفرین سے عبرت حاصل کرنے کی نصیحت کی۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اہمیت واضح کی اور حاضرین کے علم و دانش اور مقام و حیثیت کا حوالہ دے کر ان کو الہی فرائض کی ادائیگی پر ابھارا۔ آخر میں آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرکے فرمایا: “خدایا! گواہ رہنا، میں نے حجت تمام کردی ہے۔ تو خوب واقف ہے کہ میرا یہ اقدام نہ ریاست و حکومت کی لالچ میں ہے، نہ مال و دولت کی خواہش میں بلکہ میں لوگوں کو تیرے دین کی راہ بتانا چاہتا ہوں۔ اسلام کے فرائض، نبی (ص) کی سنت اور الہی احکام کا نفاذ میرا ہدف و مقصد ہے۔”
اور جب مکہ میں پورا عالم اسلام لباس احرام پہن کر حجۃ الحرام کے لئے آمادہ تھا، امام حسین (ع) اپنے اعزۂ و اصحاب کے ساتھ حج کو عمرے سے بدل کر کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ شامی نمک خوار جو حج کے اجتماع میں نواسۂ رسول (ص) کو چپکے سے قتل کرکے خون حسین (ع) کو رائگاں کردینے کی فکر میں تھے، حسینی حکمت عملی کے سامنے ذلیل و رسوا ہوگئے۔ دل و دماغ میں یہ بات خنجر کی طرح چبھنے لگی کہ حسین (ع) کو حج کے دوران خانۂ خدا میں قتل کی سازش رچنے والا یزید مسلمان کیسے کہا جا سکتا ہے؟
حسینی قافلہ، عزیز و اصحاب کے ساتھ جس میں عورتیں اور بچے سبھی موجود تھے، حسینی مظلومیت و حقانیت کا کھلا اعلان تھا۔ ہر نگاہ میں ایک سوال تھا کہ حسین (ع) اور ان کے ساتھی حج چھوڑ کر مکہ سے کیوں اور کہاں جارہے ہیں؟ چنانچہ مکہ سے روانگی کے وقت حجاج کے مجمع میں شہادت کی خبر کے ساتھ ہمراہی کی دعوت اور مکہ سے کربلا تک تمام ملنے والوں سے کی گئی باتیں، تقریریں اور نصیحتیں وہ تاریخی دستاویزیں ہیں جو حسینی سفر اور حسینی منزل و مقصد دونوں کی ترجمان ہیں۔